واقعہ معراج ایک حقیقت ہے اور آج 1400 سال بعد جیسے جیسے سائنس ترقی کر رہی ہے وہ اس کی تصدیق کرتی چلی جا رہی ہے۔ بلاشبہ کسی بھی مسلمان کی طرف سے واقعہ معراج کا کوئی انکار نہیں مگر ہم آپکو اس کے کچھ سائنسی ثبوت بھی فراہم کرتے ہیں۔

آئن سٹائن نے تھیوری آف ریلٹیوٹی میں یہ بات ثابت کی روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہے، یہاں یہ بات قابل ذکر یہ کہ روشنی کی رفتار میل میں ہے کلومیٹر میں نہیں۔ اور کبھی ایسا وقت آئے کہ اگر ایک انسان روشنی کی رفتار کا 90 فیصد پا لے اور اس سے سفر کرئے تو اس پر وقت آدھا رہ جاتا ہے۔ آسان الفاظ میں اگر ایک انسان روشنی کی رفتار سے 5 سال سفر کرے تو زمین پر اس وقت 10 سال کا عرصہ گزر چکا ہوگا۔ اور اس طرح اگر کوئی انسان روشنی کی رفتار کا 100 فیصد پا لے تو زمین کی نسبت اس کا ٹائم 0 ہو جائے گا۔ وہ جتنا مرضی سفر کر لے زمین کے مطابق اس کا وقت رک جائے گا چاہے وہ جتنا مرضی سفر کرتا رہے۔ یہ صرف تب ہی ممکن ہے جب وہ انسان مسلسل روشنی کی رفتار سے سفر کرتا رہے۔

آپ ﷺ نے جس چیز پر سب سے پہلے سواری فرمائی اس کا نام براق تھا جو برق کی جمع ہے۔ اور اس کی رفتار اتنی تھی کہ جہاں اس کی نظر جاتی تھی وہاں اس کا اگلا قدم ہوتا تھا۔ اس کے بعد والی جو جو سواری تھی وہ پہلے والی سے تیز تھی۔

آئیے اس سفر معراج پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

واقعہ معراج بعثت کے گيارہويں سال اور ہجرت سے دو سال پہلے، 27 رَجَبُ المرجَّب، پير شريف کي سُہاني اور نُور بھري رات پیش آیا۔

حضورﷺ اپني چچا زاد بہن حضرتِ اُمِّ ہاني رَضِيَ اللہُ تَعَالي عَنہَا کے گھر آرام فرمارہے تھےکہ حضرتِ جبرائيل علیہ السلام حاضِر ہوئے اور آپﷺ کو حضرتِ اُمِّ ہاني رَضِيَ اللہُ تَعَالي عَنہَا کے گھر سے مسجِدِ حرام ميں لے آئے اور آپ کا شَقِّ صَدْر فرمايا، حضرتِ جبرائيل علیہ السلام نے پيارے آقاﷺ کے قلبِ اطہر کو آبِ زَم زَم سے غسل ديا اور پھر ايمان وحکمت سے بھر کر واپس اُس کي جگہ رکھ ديا۔

بُراق کي سواري:

اس کے بعد آپ ﷺ کي بارگاہِ اقدس ميں سواري کے لئے بُراق پيش کيا گيا، پھر سيِّدِ عالَمﷺ بُراق پر سوار ہوئے اور بيت المقدس کي طرف روانہ ہوئے۔

دورانِ سفرآپ ﷺ نے تين مقامات پر نماز ادا فرمائي:

01: مدينہ شريف جس کي طرف آپ ﷺ ہجرت فرمائيں گے؟
02: طُورِ سِيْنا جہاں اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے حضرتِ موسي عَلَيْہِ السلام کو ہَم کلامي کا شَرَف عطا فرمايا تھا
03: بَيْتِ لَحْم : جہاں حضرتِ عيسي عَلَيْہِ السَّلَام کي وِلادت ہوئي تھي

بيت المقدس آمد اورانبيائے کِرَام عَلَيْہِمُ السلام کي امامت:

آپ ﷺ راستے ميں عجائباتِ قدرت کوديکھتے ہوئے، اس مقدس شہر ميں تشريف لے آئے جہاں مسجدِ اقصي واقِع ہےاور پھر مسجد اقصي ميں انبيائے کِرَام عَلَيْہِمُ السلام کي امامت فرمائي۔

آسمانوں کي طرف سفر:

بيت المقدس کے مُعَامَلات سے فارِغ ہونے کے بعد پيارے پيارے آقا، ميٹھے ميٹھے مصطفےﷺ نے آسمان کي طرف سفر شروع فرمايا۔

پہلے آسمان: پر حضرتِ آدم عَلَيْہِ السلام سے ملاقات ہوئي۔

دوسرے آسمان: پر آپ ﷺ کي حضرتِ يحيي اور حضرتِ عيسي عَلَيْہِمَا السلام سے ملاقات ہوئي۔

تيسرے آسمان: پر آپ ﷺ کي حضرتِ یوسف عَلَيْہ السلام سے ملاقات ہوئي۔

چوتھے آسمان : پر آپ ﷺ کي حضرتِ اِدْرِيس عَلَيْہ السلام سے ملاقات ہوئي۔

پانچويں آسمان: پر آپ ﷺ کي حضرتِ ہارون عَلَيْہ السلام سے ملاقات ہوئي۔

چھٹے آسمان: پر آپ ﷺ کي حضرتِ موسي عَلَيْہِمُ السلام سے ملاقات ہوئي۔

ساتويں آسمان: پر آپ ﷺ کي حضرتِ ابراہيم خَلِيْلُ اللہ عَلَيْہِمُ السلام سے ملاقات ہوئي۔

سدرۃ المنتہیٰ:

ساتویں آسمان پر حضرتِ ابراہیم خَلِیْلُ اللہ علیہ السلام سے ملاقات فرمانے کے بعد سیِّدِ والا تبار، دوعالَم کے تاجدار ﷺ سِدْرَۃُ المنتہیٰ کے پاس تشریف لائے۔ یہ ایک نورانی بیری کادرخت ہے، جس کی جڑ چھٹے آسمان پر اور شاخیں ساتویں آسمان کے اُوپر ہیں۔

مقامِ مستویٰ:

جب پیارے آقا، میٹھے مصطفےٰ ﷺ سِدْرَۃُ المنتہیٰ سے آگے بڑھے تو حضرتِ جبرائیل علیہ السلام وہیں ٹھہر گئے اور آگے جانے سے مَعْذِرَت خواہ ہوئے۔ پھر آپ ﷺ آگے بڑھے اور بلندی کی طرف سفر فرماتے ہوئے ایک مقام پر تشریف لائے جسے مستویٰ کہا جاتا ہے۔

عرشِ عُلیٰ سے بھی اُوپر:

پھر مستویٰ سے آگے بڑھے تو عرش آیا، آپ ﷺ اس سے بھی اُوپر تشریف لائے اور پھر وہاں پہنچے جہاں خُود ” کہاں“ اور ” کب“ بھی ختم ہو چکے تھے کیونکہ یہ الفاظ جگہ اور زمانے کے لئے بولے جاتے ہیں اور جہاں ہمارے حُضُورِ انور ﷺ رونق اَفْرَوز ہوئے وہاں جگہ تھی نہ زمانہ۔ اسی وجہ سے اسے لامکاں کہا جاتا ہے۔

یہاں اللہ رَبُّ الْعِزّت عَزَّ وَجَلَّ نے اپنے پیارے محبوب ﷺ کو وہ قربِ خاص عطا فرمایا کہ نہ کسی کو مِلا نہ ملے۔

دیدارِ الٰہی اور ہَم کَلامی کا شَرَف:

آپﷺ نے بیداری کی حالت میں سر کی آنکھوں سے اپنے پیارے ربّ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کا دیدار کیا کہ پَردہ تھا نہ کوئی حجاب، زمانہ تھا نہ کوئی مکان، فِرِشتہ تھا نہ کوئی اِنسان، اور بےواسطہ کلام کا شَرَف بھی حاصِل کیا۔

پچاس سے پانچ نمازیں:

اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے محبوب ﷺ کو ہر دِن رات 50 نمازوں کا تحفہ (بھی) عَطا فرمایا۔ (پھر اس کے بعد حضرت موسی علیہ السلام سے ملاقات اور پھر دوبار رب کی بارگاہ میں جانا اور نمازوں کا 50 سے 5 ہوجانے کا واقعہ پیش آیا)۔

جنت کی سیر اور جہنّم کا مُعَائنہ:

پھر آپ ﷺ کو جنت میں لایا گیا اور آپ نے جنت کی سیر فرمائی اور اس میں وہ نعمتیں دیکھیں جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے نیک بندوں کے لئے تیار کر رکھی ہیں جنہیں کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دِل میں اس کا خَیَال گزرا، جنت کی سیر کے بعد آپ ﷺکو جہنّم کا مُعَاینہ کرایا گیا، وہ اس طرح کہ آپ ﷺ جنت میں ہی موجود تھے اور جہنّم پر سے پَردہ ہٹا دیا گیا جس سے آپ ﷺنے اُسے مُلاحظہ فرما لیا۔

واپسی کا سفر:

اس کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوا۔ اور یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت ہے کہ اس نے رات کے مختصر سے حصے میں اپنے پیارے محبوب علیہ السلام کو بیت المقدس اور پھر ساتوں آسمانوں نیز عرش وکرسی سے بھی اُوپر لامکاں کی سیر کرائی، بعض نادان جو ہر بات کو عقل کے ترازو پر تولنے کے عادِی ہوتے ہیں ایسے مُعَاملات میں بھی اپنی ناقص عقل کو دخل دیتے ہیں۔

یاد رکھئے! اللہ عَزَّوَجَلَّ قادِرِ مطلق ہے، وہ ہر شے پر قادِر ہے۔ یہ زمین وآسمان، یہ پہاڑ وسمندر، یہ چاند وسورج، یہ فاصلے اور یہ سفر کی منزلیں سب کچھ اُسی کا پیدا کیا ہوا ہے، وہ جس کے لئے چاہے فاصلے سمیٹ دے اور جس کے لئے چاہے بڑھا دے، عقلیں اس کا اِحَاطہ کرنے سے قاصِر ہیں۔

صِدِّیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہ کی تصدیق:

جب سرکارِ ﷺ نے لوگوں کو واقعہ مِعْرَاج کی خبر دی تو عقل پرست کُفّار ومُشْرِکین کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ کوئی شخص رات کے مختصر سے حصّے میں بیت المقدس کی سیر کیسے کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں اُنہوں آپ ﷺکی تکذیب کی آپ ﷺ کے سفرِ مِعْرَاج کا اِعْلان فرمانے پر بعض لوگ دوڑتے ہوئے حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صِدِّیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے: کیا آپ اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں جو آپ کے دوست (حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم)نے کہی، تو بغیر کسی تذبذب اور ہچکچاہٹ کے فوراً پیارے آقا ﷺ کی تصدیق کر دی، اس کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہ صِدِّیق مشہور ہو گئے۔

(خلاصہ از فیضان معراج)

 

Share: