کورونا وائرس بہت تیزی سے دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل رہا ہے اور اب تک اس کا مصدقہ علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے۔

تاہم بدقسمتی سے کورونا وائرس کے علاج کے حوالے سے آن لائن طبی مشورے دیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ بعض مشورے بیکار مگر بے ضرر سے ہیں مگر بعض انتہائی خطرناک۔

ہم نے بڑے پیمانے پر آن لائن شیئر کیے جانے والے اس نوعیت کے دعوؤں کا جائزہ لیا ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ سائنس اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔

1۔ لہسن

سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر کئی پوسٹس شیئر کی گئی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ لہسن کھانے سے انفیکشن کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ اگرچہ لہسن ایک صحت مند غذا ہے جس میں کچھ اینٹی مائکروبیل (اینٹی بیکٹیریل) خصوصیات ہو سکتی ہیں ، اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ لہسن کھانے سے لوگ کورونا وائرس سے محفوظ رہتے ہیں۔ کر سکتے ہیں۔

ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے ایک خاتون کی کہانی شائع کی ہے جسے 1.5 کلو کچا لہسن کھانے کے بعد ہسپتال لے جایا گیا۔ اتنا لہسن کھانے سے اس کے گلے میں شدید درد ہو گیا۔

2- ’معجزاتی معدنیات‘

معروف یو ٹیوبر جورڈن سیٹھر نے دعویٰ کیا ہے کہ “معجزاتی معدنیات” کورونا وائرس کو مکمل طور پر ختم کر سکتی ہیں۔ ان معدنیات کو ایم ایم ایس کہا جاتا ہے۔

اردن سیٹھر کے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر ہزاروں فالورز ہیں۔

یہ معدنیات کلورین ڈائی آکسائیڈ پر مشتمل ہیں ، ایک بلیچنگ ایجنٹ۔ سیٹھر اور اس کے ساتھیوں نے کورونا وائرس پھیلنے سے بہت پہلے معدنیات کو فروغ دینا شروع کیا۔

اس سال جنوری میں ، انہوں نے ٹویٹ کیا کہ “کلورین ڈائی آکسائیڈ نہ صرف مؤثر طریقے سے کینسر کے جراثیم کو مار دیتی ہے بلکہ یہ کورونا وائرس کو بھی مار دیتی ہے۔”

پچھلے سال ، امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے ان معدنیات کو پینے کے صحت کے خطرات سے خبردار کیا تھا۔ دوسرے ممالک میں ، صحت کے عہدیداروں نے الرٹ جاری کیا ہے۔

فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کا کہنا ہے کہ “ہم کسی ایسی تحقیق سے آگاہ نہیں ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسی مصنوعات کسی بھی بیماری کے علاج میں موثر ہیں۔”

امریکی ایجنسی نے مزید کہا کہ یہ معدنیات پینے سے متلی ، اسہال ، ہیضہ اور شدید پانی کی کمی جیسی علامات پیدا ہو سکتی ہیں۔

3- گھروں میں بنائے گئے جراثیم کُش محلول

بہت سی ایسی رپورٹس بھی موصول ہوئی ہیں کہ مختلف ممالک میں ہاتھوں کو جراثیم سے پاک کرنے والے محلول (ہینڈ سینیٹائزر) کی کمی ہو گئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے بچاؤ کا ایک بڑا ذریعہ ہاتھوں کو بار بار دھونا ہے۔

جب اٹلی میں اس محلول کی کمی کی خبریں آنا شروع ہوئیں تو سوشل میڈیا پر ایسے جراثیم کش محلول گھروں میں تیار کرنے کی ترکیبیں وائرل ہو گئی۔

مگر بہت سی ایسی ترکیبیں زمین یا گھر میں رکھی اشیا کی سطحوں کو صاف کرنے میں تو مدد گار ہو سکتی ہیں مگر جیسا کہ سائنسدانوں نے کہا ہے کہ یہ انسانی جلد کے لیے بالکل بھی موضوع نہیں ہیں۔

الکوحل والی ہاتھوں کی جیل میں عموماً جلد کو نرم، ملائم اور تازہ رکھنے والے اجزا بھی شامل ہوتے ہیں۔

لندن سکول آف ہائجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن سے وابستہ پروفیسر سیلی بلوم فیلڈ کہتی ہیں کہ وہ یقین نہیں کر سکتیں کہ آپ گھر میں اتنا موثر جراثیم کش محلول تیار کر سکتے ہیں۔

امریکہ کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کا کہنا ہے کہ مختلف سطحوں کی صفائی ستھرائی کے لیے گھر میں عام دستیاب جراثیم کش محلول موثر ہوتے ہیں۔

4- پینے کے قابل چاندی

امریکی ٹی وی شو کے میزبان جم بیکر نے اپنے ایک پروگرام میں ‘کولائیڈل سلور’ کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی۔

کولائیڈل چاندی دراصل کسی بھی مائع میں دھات کے باریک ذرات ہوتے ہیں۔ تقریب میں ایک مہمان نے دعویٰ کیا کہ یہ حل 12 گھنٹوں کے اندر کورونا وائرس کے چند جراثیموں کو مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تاہم ، مہمان نے یہ بھی تسلیم کیا کہ کوویڈ 19 پر حل کا تجربہ نہیں کیا گیا ہے۔

فیس بک پر وسیع پیمانے پر یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ یہ حل کورونا کے علاج میں مفید ہو سکتا ہے ، اور وہ گروہ جو مرکزی راستے کی طبی مشوروں پر شک میں تھے

اس کیس کے حامی اس بیان کی اصل نقل کو آن لائن دستیاب کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ حل مدافعتی نظام کو بھی بہتر بناتا ہے۔ لیکن امریکی صحت کے عہدیداروں نے واضح کیا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اس قسم کی چاندی کسی بھی بیماری کے علاج میں کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کے استعمال سے صحت پر بہت سے نقصان دہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ، جیسے گردے کو نقصان ، دورے اور اریٹھیمیاس (ایک بیماری جس میں جلد نیلی ہو جاتی ہے)۔

صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ لوہے اور زنک جیسی دھاتوں کے برعکس چاندی ایک دھات ہے جس کا انسانی جسم میں کوئی کام نہیں ہوتا۔

جو لوگ فیس بک پر چاندی کے حل کی تشہیر کرتے تھے اب انہیں فیس بک انتظامیہ کی جانب سے انتباہی پیغامات بھیجے جا رہے ہیں۔

5- ہر 15 منٹ بعد پانی پینا

ایک پوسٹ ایسی بھی ہے جسے ہزاروں مرتبہ شیئر کیا جا چکا ہے۔ اس پوسٹ میں ’جاپانی ڈاکٹر‘ کے ایک مبینہ پیغام کو بیان کیا گیا ہے۔ اس پیغام میں کہا جا رہا ہے کہ ہر 15 منٹ بعد پانی پینے سے منھ میں موجود تمام وائرس ختم ہو جاتے ہیں۔

اس پیغام کے ایک عربی ورژن کو ڈھائی لاکھ سے زائد مرتبہ شیئر کیا جا چکا ہے۔

یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے پروفیسر ٹروڈی لانگ کہتے ہیں کہ اس طرح کا کوئی حیاتیاتی میکینزم موجود نہیں ہے جو اس بات کو سپورٹ کرے کہ آپ فقط پانی پی کر وائرس کو اپنے منھ سے معدے میں منتقل کریں اور اسے ہلاک کر دیں۔

کورونا وائرس جیسے انفیکشن نظام تنفس کے ذریعے جسم میں اس وقت داخل ہوتے ہیں جب آپ سانس لیتے ہیں۔

بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ وائرس منھ میں داخل ہو جائے، اور اگر داخل ہو بھی جائے پھر بھی لگاتار پانی پینا آپ کو وائرس کا شکار ہونے سے نہیں بچا سکتا۔

یہ اور بات ہے کہ اچھی اور مناسب مقدار میں پانی پینا آپ کی صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔

6- گرم رہیں اور آئس کریم سے اجتناب

اس کے علاوہ اور بہت سے ایسے مشورے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ گرمی وائرس کو ختم کر دیتی ہے یا بہت زیادہ گرم پانی پیئں یا گرم پانی سے نہائیں اور یہاں تک کہ ہیئر ڈرائیر کا استعمال کریں۔

مختلف ممالک میں سوشل میڈیا صارفین نے ایک پوسٹ کو یہ کہتے ہوئے شیئر کیا ہے کہ یہ یونیسیف کی جانب سے جاری کی گئی ہے، حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں۔

اس پوسٹ میں پیغام دیا گیا ہے کہ گرم پانی کا استعمال اور سورج کے سامنے زیادہ سے زیادہ رہنا وائرس کی ہلاکت کا باعث بنتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آئس کریم کھانے سے گریز کریں۔

یونیسیف میں کورونا وائرس سے متعلق غلط معلومات کی سرکوبی کے لیے کام کرنے والی چارلوٹ گورنتزکا کہتی ہیں کہ ’سوشل میڈیا پر یونیسیف کے نام سے ایک پیغام چلایا گیا جس میں دعوی کیا گیا کہ آئس کریم اور دیگر ٹھنڈے مشروبات کا استعمال نہ کرنا کورونا وائرس سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔ یقیناً، یہ سچ نہیں ہے۔‘

ہم سب جانتے ہیں کہ فلو کا وائرس گرم موسم میں انسانی جسم کے باہر زندہ نہیں رہ سکتا مگر ہم یہ بالکل نہیں جانتے کہ گرمائش نئے کورونا وائرس پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے۔

پروفیسر بلوم فیلڈ کے مطابق اپنے جسم کو گرم رکھنا یا سورج کے سامنے زیادہ سے زیادہ رہنا، صرف اس وجہ سے کہ آپ کا جسم وائرس کی آمجگاہ نہ بن جائے، مکمل طور پر غیر موثر ہے۔ جب ایک مرتبہ وائرس آپ کے جسم میں داخل ہو جاتا ہے تو ایسا کوئی طریقہ کار نہیں ہے کہ آپ اسے ہلاک کر دیں، ہاں وائرس کے جسم میں داخل ہونے کی صورت میں آپ کی جسمانی قوت مدافعت اس سے لڑتی ہے اور اسے ختم کر دیتی ہے۔

پروفیسر بلوم فیلڈ کا مزید کہنا ہے انسانی جسم کے باہر ’کسی بھی وائرس کو فوراً ہلاک کرنے کے لیے آپ کو 60 ڈگری سینٹی گریڈ کے لگ بھگ درجہ حرارت چاہیے۔ اور یہ درجہ حرارت کسی بھی گرم پانی کا غسل کرنے سے بہت زیادہ گرم ہے۔‘

Share: