پلاسٹک کے استعمالات اور فوائد بے شمار ہیں، یہ بات اپنی جگہ درست ہے، مگر اس کے باعث پیدا ہونے والی آلودگی بھی تو کرہ ارض، اس پر پائے جانے والے حیوانات و نباتات، اور نسل انسانی کے لئے ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ نئی قسم کے پلاسٹک کی تیاری عام پلاسٹک کی نسبت قدرے مہنگی ہوگی لیکن روایتی پلاسٹک آلودگی کی صورت میں کرہ ارض اور نسل انسانی کے لئے جتنا مہنگا پڑرہا ہے اس کے مقابلے میں نئی قسم کے پلاسٹک کی قیمت نہ ہونے کے برابر ہے۔
پلاسٹک کی اشیاء خشکی سے لے کر سمندر کی گہرائیوں تک آلودگی کا سبب بن رہی ہیں اور چونکہ ہزاروں سال بعد بھی پلاسٹک مکمل طور پر تحلیل نہیں ہوتا تو اس کے باعث پھیلنے والی آلودگی کا خاتمہ بھی کسی طور ممکن نظر نہیں آتا۔ ایسی پریشان کن صورتحال میں یونیورسٹی آف اوریگن کے سائنسدانوں نے حیران کن دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے پلاسٹک کی ایک ایسی قسم ایجاد کرلی ہے جو ماحول کو بالکل آلودہ نہیں کرے گی، اور مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ اس پلاسٹک کو کھایا بھی جا سکتا ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کی یہ نئی قسم سمندری کائی سے تیار کی جائے گی جو 100 فیصد بائیو ڈی گریڈ ایبل ہے، یعنی تحلیل ہوکر دوبارہ سے قدرتی عناصر میں تبدیل ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسے تیار کرنے کے لئے سمندر کائی کی ایک خاص قسم جسے ’بھوری کائی‘ کہتے ہیں، کا سفوف تیار کیا جاتا ہے اور اسے باریک پلاسٹک کی تہوں میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ اس پلاسٹک کو ناصرف برتن بنانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے بلکہ پیکنگ کے لئے، مشروبات کی بوتلیں بنانے کے لئے اور کیپسول بنانے جیسے مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اس کی مدد سے پودوں کے لئے ایسے گملے بھی تیار کئے جاسکتے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ تحلیل ہوتے چلے جائیں گے اور پودے کے لئے کھاد کے طو رپر بھی استعمال ہوں گے۔