کووڈ 19 کی وبا 2019 کےآخر میں پھیلی۔ لیکن ایسی علامات موجود ہیں کہ اس کے کچھ مریضوں کو مکمل صحتیاب ہونے میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔

ایک مریض کورونا سے صحتیاب کب ہوتا ہے یہ بیماری کی شدت پر منحصر ہے۔ کچھ لوگ اس بیماری سے جلدی صحتیاب ہوجاتے ہیں لیکن یہ ممکن ہے کہ کچھ مریضوں میں اس سے پیدا ہونے والے مسائل طویل مدتی ہوں۔

آپ کی عمر، جنس اور صحت اس بات کا تعین کرتی ہے کہ آپ کووڈ 19 سے کس حد تک بیمار ہوسکتے ہیں۔

ایک شخص کی صحتیابی کتنی دیر میں ہوگی یہ اس پر منحصر ہے کہ اس کا علاج کن حالات میں اور کتنی دیر سے ہو رہا ہے۔

علامات کم ظاہر ہوں تو صحتیابی میں کتنا وقت لگے گا؟

کووڈ 19 سے متاثرہ اکثر افراد میں صرف مرکزی علامات ظاہر ہوتی ہیں، جیسے کھانسی اور تیز بخار۔ لیکن انھیں جسم میں تکلیف، تھکاوٹ، گلے کی سوزش اور سردرد بھی محسوس ہوسکتا ہے۔

یہ کھانسی شروع میں خشک ہوتی ہے لیکن بعد میں کچھ لوگوں کی کھانسی میں بلغم کا اخراج ہوتا ہے جس میں پھیپھڑوں کے مردہ خلیات ہوتے ہیں۔

ان علامات کا علاج بستر پر آرام، پانی یا دیگر مشروبات کا استعمال اور درد سے نجات دلانے والی ادویات جیسے پیراسیٹامول سے کیا جاتا ہے۔

کم علامات والے متاثرین جلد مکمل صحتیاب ہوجاتے ہیں۔

ان کا بخار ایک ہفتے سے کم عرصے میں ختم ہوجاتا ہے لیکن کھانسی کچھ دیر کے لیے برقرار رہ سکتی ہے۔ چین سے ملنی والی معلومات کی مدد سے عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ صحتیاب ہونے میں دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔

اگر علامات زیادہ ظاہر ہوں تو کیا؟

کچھ لوگوں کے لیے یہ بیماری کافی خطرناک ہو جاتی ہے اور ایسا انفیکشن کے سات سے 10 روز بعد ہوتا ہے۔

یہ تبدیلی اچانک رونما ہوسکتی ہے۔ سانس لینا مشکل اور پھیپھڑوں میں سوجن ہوجاتی ہے۔ یہ اس لیے کہ جسم کا مدافعتی نظام وائرس سے لڑنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ یہ ضرورت سے زیادہ ردعمل ظاہر کرتا ہے جس سے جسم کو بھی نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے۔

کچھ لوگوں کو زیادہ آکسیجن کی فراہمی کے لیے ہسپتال داخل ہونا پڑتا ہے۔

جنرل فزیشن سارہ جاروس کہتی ہیں کہ: ’سانس کے مسئلے کو ٹھیک ہونے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے اور اس دوران جسم سوجن اور دیگر اثرات سے بحال ہوتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ایسے میں صحتیاب ہونے کے لیے دو سے آٹھ ہفتے لگ سکتے ہیں۔ اس میں تھکاوٹ مزید کچھ دیر کے لیے رہتی ہے۔

انتہائی نگہداشت کی ضرورت کب ہوتی ہے؟

عالمی ادارہ صحت کے مطابق کورونا وائرس کے 20 میں سے ایک مریض کو علاج میں انتہائی نگہداشت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس میں بیہوش کرنا اور وینٹی لیٹر کا استعمال شامل ہیں۔

آئی سی یو (انتہائی نگہداشت کے وارڈ) میں رہنے کے بعد مکمل صحتیاب ہونے میں کچھ وقت لگتا ہی ہے، چاہے آپ کو کوئی بھی بیماری ہو۔ مریضوں کو گھر بھیجنے سے پہلے آئی سی یو سے عام وارڈ میں داخل کیا جاتا ہے۔

انتہائی نگہداشت کی ادویات کی ماہر ڈاکٹر الیسن کہتی ہیں کہ آئی سی یو کے بعد مکمل صحتیابی میں 12 سے 18 ماہ لگ سکتے ہیں۔

ہسپتال کے بستر پر زیادہ وقت گزارنے سے پٹھوں کا وزن کم ہوسکتا ہے۔ مریض کمزور ہوجاتے ہیں اور انھیں دوبارہ اپنی پہلے جیسی صحت حاصل کرنے میں وقت لگ سکتا ہے۔ کچھ لوگوں کو دوبارہ صحیح طرح چلنے پھرنے کے لیے فزیوتھراپی کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

آئی سی یو میں وقت گزارنے سے جسم میں تبدیلیاں آسکتی ہیں اور نفسیاتی مسائل کا بھی امکان پیدا ہوجاتا ہے۔

کارڈف اور ویل یونیورسٹی ہیلتھ بورڈ میں انتہائی نگہداشت کے فزیوتھیراپسٹ ڈاکٹر پال کہتے ہیں کہ ’اس مرض کے ساتھ اضافی بوجھ بھی ہوتا ہے۔ وائرس کی وجہ سے تھکاوٹ ایک اہم پہلو ہے۔‘

چین اور اٹلی سے ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ مریضوں میں صحتیابی کے بعد پورا جسم کمزور ہوجاتا ہے، ان کی سانس پھولتی ہے، کھانسی رہتی ہے اور سانس لینے میں مشکلات پیدا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انھیں بہت نیند آتی ہے۔

’ہمیں معلوم ہے کہ مریضوں کو صحتیابی کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے، ممکنہ طور پر کچھ ماہ۔‘

لیکن اس دورانیے کو سب کے لیے مختص کرنا مشکل ہے۔ کچھ لوگ انتہائی نگہداشت میں کم وقت گزارتے ہیں جبکہ کچھ کو کئی ہفتوں کے لیے وینٹی لیٹر پر رکھنا پڑتا ہے۔

کورونا وائرس کے طویل مدتی اثرات ہوسکتے ہیں؟

فی الحال کورونا وائرس کے حوالے سے طویل مدتی معلومات نہیں ہے۔ لیکن ہم دوسرے امراض سے اس کا موازنہ کر سکتے ہیں۔

ایسے مریض جن میں مدافعتی نظام کے ردعمل کی وجہ سے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا ہو انھیں سانس لینے میں دشواری کی حالت ’آرڈز‘ ہوسکتی ہے۔

فزیوتھیراپسٹ پال کے مطابق ’ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچ سال بعد تک لوگوں کو جسمانی اور نفسیاتی مسائل کا سامنا رہ سکتا ہے۔

جنرل فزیشن ڈاکٹر جیمز گِل کہتے ہیں کہ لوگوں کو ذہنی صحت کی بہتری کے لیے بھی مدد درکار ہوتی ہے۔

’آپ کو سانس لینے میں دشواری ہورہی ہے۔ پھر ڈاکٹر کہتا ہے کہ ’ہمیں آپ کو وینٹی لیٹر پر رکھنا ہوگا۔ آپ کو سلانا پڑے گا۔ کیا آپ اپنے خاندان کو الوداع کہنا چاہتے ہیں؟‘

اس طرح کی تشویش سے گزرنے والے مریضوں میں پی ٹی ایس ڈی (یا صدمے کی کیفیت) غیر معمولی نہیں۔ کئی لوگوں کے لیے اس میں نفسیاتی علامات رہ جائیں گے۔‘

یہ ممکن ہے کہ کچھ کم بیمار افراد میں بھی طویل مدتی اثرات رہ جائیں، جیسے تھکاوٹ۔

کتنے لوگ اب تک صحتیاب ہوئے ہیں؟

اس بارے میں مستند اعداد و شمار حاصل کرنا مشکل ہے۔ جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق 20 اپریل تک کورونا وائرس سے چھ لاکھ سے زیادہ افراد صحتیاب ہوچکے ہیں۔ جبکہ متاثرین کی کل تعداد 24 لاکھ سے زیادہ ہے۔

لیکن مختلف ممالک اعداد و شمار کے اندراج کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں۔ کچھ جگہوں پر صحتیاب ہونے والے مریض اور کم علامات والے مریض شامل نہیں کیے جا رہے۔

ریاضی کے مختلف طریقوں سے یہ اندازے لگائے گئے ہیں کہ بیمار ہونے والے 99 سے 99.5 فیصد افراد صحتیاب ہوجاتے ہیں۔

کیا کسی کو دوسری مرتبہ کورونا وائرس ہوسکتا ہے؟

اس بارے میں بہت اندازے لگائے گئے ہیں لیکن اس کے بارے میں شواہد ناکافی ہیں۔

اگر ایک مریض نے کامیابی سے وائرس سے نمٹ لیا ہے تو یقیناً انھوں نے اپنے مدافعتی نظام میں اس کے خلاف ردعمل بنا لیا ہو گا۔

یہ ممکن ہے کہ مریضوں میں صحتیابی کے بعد دوبارہ کورونا وائرس کی تشخیص غلط ٹیسٹنگ کا نتیجہ ہو جس میں پہلی بار غلطی سے سمجھ لیا گیا کہ وہ کورونا وائرس سے آزاد ہو چکے ہیں۔

قوت مدافعت کو سمجھنا اس لیے اہم ہے کہ اس سے لوگوں کے کورونا وائرس سے دوبارہ متاثر ہونے اور اس بیماری کے خاتمے کے لیے ویکسین کتنی کارآمد ثابت ہوگی۔

Share: