کمپنی نے پابندی کا اعلان سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹویٹ میں کیا۔
کمپنی نے ایک بیان میں کہا کہ عوام کی تصاویر یا ویڈیوز کو ان کی اجازت کے بغیر شیئر کرنا پرائیویسی کی خلاف ورزی اور ممکنہ طور پر نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
ٹویٹر کی حفاظتی ٹیم نے ایک بلاگ پوسٹ میں اس کی تفصیل دی۔
بیان کے مطابق، اگرچہ میڈیا فائلیں شیئر کرنے سے ہر کوئی متاثر ہو سکتا ہے، لیکن خواتین، سماجی کارکنوں اور اقلیتی برادریوں کے ارکان پر اس کا زیادہ اثر پڑتا ہے۔ اگر کوئی صارف کسی ایسی تصویر یا ویڈیو کی اطلاع دیتا ہے جو پالیسی کی خلاف ورزی کرتی ہے، تو ٹوئٹر میڈیا فائلوں کو ہٹا دے گا اور مختلف اختیارات کے تحت کارروائی کرے گا۔
ان اقدامات میں جواب اور تلاش کے نتائج میں صارفین کے مواد کو نیچے لایا جا سکتا ہے یا اس شخص سے ٹویٹ ڈیلیٹ کرنے کو کہا جائے گا۔ ٹوئٹر کے پاس پالیسی کی خلاف ورزی پر صارفین کو مستقل طور پر معطل کرنے کا اختیار بھی ہوگا۔
اس پالیسی میں کچھ مستثنیات بھی ہیں، جیسے کہ عوامی شخصیات کے نجی میڈیا کو کور نہ کرنا یا عوامی مفاد میں کوئی تصویر، ویڈیو یا ویڈیو شیئر نہ کرنا۔ سیدھے الفاظ میں، اگر وہ میڈیا فائلیں اہم ہیں، تو وہ پلیٹ فارم پر ٹوئٹر کے ذریعے برقرار رکھی جائیں گی۔
یہ فیصلہ کمپنی مختلف عناصر جیسے ٹی وی یا اخبارات میں تصاویر کی موجودگی کو مدنظر رکھ کر کرے گی۔
لیکن کمپنی نے واضح کیا ہے کہ اگر عوامی شخصیات یا دوسروں کی نجی تصاویر یا ویڈیوز شیئر کرنے کا مقصد انہیں ہراساں کرنا یا خاموش کرنا ہے تو ٹوئٹر کی جانب سے ان فائلوں کو ڈیلیٹ کر دیا جائے گا۔
ٹویٹر نے طویل عرصے سے صارفین پر دوسرے لوگوں کی ذاتی تفصیلات، جیسے کہ رہائشی پتے، فون نمبر، شناختی دستاویزات یا مالی تفصیلات استعمال کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔