کونکورڈ ایک ایسا جہاز تھا جو جب زمین پر لینڈ کرتا تو لمبی اور مخروطی ناک کی وجہ سے بلکل ایسا لگتا کہ جیسے کوئی عقاب اپنے شکار پر جھپٹ رہا ہے۔

یہ کونکورڈ جہاز برطانیہ اور فرانس کا مشترکہ منصوبہ تھا اور جس نے تقریباً چار دہائیوں تک لوگوں کے دلوں پر راج کیا۔

قریب 1976 میں باقاعدہ ہوائی نظام میں شامل ہونے کے 27 سال بعد کونکورڈ کو 24 اکتوبر 2003 کو گراونڈ کر دیا گیا تھا۔

آواز کو پیچھے چھوڑنے کی خواہش

دنیا بھر میں پہلا سپر سونک یعنی آواز سے تیز تر مسافر جہاز بنانے کی دوڑ شروع ہو ئی جب امریکی 1947 میں پہلی مرتبہ آواز کی رفتار سے تیز پرواز کرنے میں کامیاب ہوئے چکے تھے۔

برطانیہ کو کچھ حد تک اس جہاز بنانے کا آئیڈیا مل گیا تھا لیکن اس کی تکمیل میں دس کروڑ پاؤنڈ کا خرچہ آنا تھا۔

برطانیہ کے ساتھ ساتھ دوسری جانب فرانس بھی ایک ایسے تصور پر کام کر رہا تھا جو برطانوی ڈیزائن کے مشابہ تھا۔ مگر دونوں ممالک نے مقابلہ کرنے کے بجائے ایک دوسرے سے آئیڈیاز کا تبادلہ کیا اور اخراجات آپس میں بانٹ لینے پر اتقاق کیا۔

ایک دوسرے پر شک

دونوں ممالک کے انجینیئرز میں کافی ہم آہنگی تھی مگر ان کے سیاست دان صرف اپنی سیاست چمکانے میں لگے ہوئے تھے۔

وزیرِ اعظم برطانیہ ہیرالڈ ولسن کو جب معلوم ہوا کہ فرانسیسیوں نے کونکورڈ کے نام کے آخر میں انگریزی حرف ‘ای’ کا اضافہ کر دیا ہے تو اُنھیں فرانسیسی صدر چارلس ڈی گال پر بہت غصہ آیا، چنانچہ اُنھوں نے وہ ہٹوا دیا۔ مگر ڈی گال نے یہ واپس لگوا دیا۔

برطانیہ اور فرانس کے مشترکہ کام کے ایک سال بعد ابتدائی ڈیزائن دنیا کو پیش کیا گیا۔ اس کا اندرونی حصہ لکڑی کا بنا ہوا تھا جو کہ ایک نمونہ تھا۔

٘نمونہ سامنے آتے ہی فوراً ہی اس طیارے کے آرڈرز موصول ہونے لگے۔ ‘ہوابازی کی صنعت بہت پُرجوش تھی۔ سپر سونک پروازوں کا یہ ابتدائی دور تھا۔ اس نے ایئرلائن مالکان میں وہ جوش بھر دیا تھا جو آج تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ سب کو معلوم تھا کہ کونکورڈ ہی اگلی بڑی چیز ہے۔’

ابتدائی خدشات: دھواں اور شور

اس وقت جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش تھا وہ دھواں اور شور تھا۔ کونکورڈ کے انجنز سے نکلنے والے گاڑھے دھوئیں اور اس کے شور کے بارے میں خدشات پیدا ہونے شروع ہو گئے۔

یہ جہاز جب بھی کہیں سے گزرتا تھا وہ وہاں دھماکے سنائی دیتےتھے، جنھیں سونک بوم کہا جاتا ہے۔ یہ دھماکے تب پیدا ہوتے ہیں جب کوئی چیز آواز کی رفتار سے تیز سفر کرتی ہے۔

مگر 1972 آنے تک بھی کونکورڈ منصوبہ اب تک ایک ارب پاؤنڈز سے زیادہ پھونک چکا تھا اور اب بھی سروس میں آنے سے کہیں دور تھا۔

اسی دوران کونکورڈ کے پروٹوٹائپ کو برطانوی وزیرِ ہوابازی لارڈ مائیکل ہیسیلٹائن اور متعدد انجینیئرز کے ساتھ ایک سیلز ٹور پر بھیجا گیا جس نے دنیا بھر کا دورہ کرتے ہوئے دیگر کمپنیوں کو بھی اس کی خریداری پر قائل کرنا تھا۔

مگر آواز کی رفتار سے دو گنا تیزی سے سفر کرنے کے لیے ایئرکرافٹ ڈیزائن میں بہت بڑی پیش رفت کی ضرورت تھی۔ کئی مہینوں تک طیاروں کے پروں کی آزمائش کی جاتی رہی اور فوجی طیاروں سے حاصل انجنز کو از سرِ نو بنا کر اُنھیں دوگنا طاقتور بنایا گیا۔

لمبی ناک کو کسی بھی دوسرے مسافر طیارے کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے ہوا چیرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔

آرڈرز منسوخ ہونے لگے

کونکورڈ کی طلب میں آنے کی سب سے بڑی وجہ اس کی آواز اور دھواں تھا۔ جب یہ سیلز ٹور جاپان پہنچا تو اس سے نکلنے والا دھواں دیکھ کر جاپانی صدمے میں چلے گئے اور اُنھوں نے اپنے تین طیاروں کا آرڈر منسوخ کر دیا۔

جب کونکورڈ آسٹریلیا پہنچا تو وہاں لوگوں نے اس کے شور سے آسٹریلیا کے اصلی، قبائلی باشندوں پر ہونے والے منفی اثرات کے خلاف مظاہرہ کیا۔ لوگوں نے اسے ‘نوآبادیاتی ہوابازی’ تصور کیا جس میں فرانس اور برطانیہ نے اُن غریب لوگوں پر سے کونکورڈ کی پروازیں اڑانی تھیں جو خود کبھی اس طیارے میں سفر نہیں کر سکتے تھے۔

سونک بوم اب ایک عالمی مسئلہ بننے لگا تھا۔ انڈیا نے کونکورڈ کو اپنے زمینی حصے کے قریب نچلی پرواز سے منع کر دیا تھا کیونکہ کیٹی جون کے مطابق ‘انڈین یہ کہنے لگے تھے کہ ہم اس شور سے کیوں متاثر ہوں، کیا ہم برطانوی اور فرانسیسیوں سے کم اہم ہیں؟’

اپنے مشکلات سے بھرپور مستقبل کی پہلی جھلک دیکھنے کے بعد یہ طیارہ اپنے وطن واپس لوٹ آیا۔ مگر جو خوش قسمت لوگ اس میں پہلی مرتبہ سفر کر پائے اُن کے لیے یہ نہایت یادگار تجربہ تھا۔

دوپہر مصر میں، شام لندن میں

چارٹر پروازیں کھلنے سے اس جہاز کی مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا۔ اس کی پروازیں دنیا بھر میں دو سو سے زیادہ ہوائی اڈوں تک جانے لگی تھیں جن میں سے 76 امریکہ میں تھے۔

اس جہاز میں سفر کرنا زندگی کا منفرد ترین تجربہ کہلاتا تھا اور برٹش ایئرویز اسے اپنی ائی لائن کی تشہیر کے لیے بھی استعمال کرتی تھی۔

یہاں تک کہ لوگ برطانیہ سے مصر تک جاتے، اہرامِ مصر کے اردگرد گھومتے اور شام کی چائے تک واپس لندن پہنچ جاتے۔

ریگ ہال نامی ایک مسافر بتاتے ہیں کہ ‘سورج غروب ہو چکا تھا مگر جہاز اٹلی کی جانب جا رہا تھا اور کپتان کی جانب سے کہا گیا کہ دیکھیں ہم اتنی تیزی سے جا رہے ہیں کہ سورج واپس اوپر آ رہا ہے۔ یہ کتنا منفرد تجربہ تھا۔’

ایسا لگنے لگا تھا کہ یہ خواب ہمیشہ جاری رہے گا۔

خواب جو ٹوٹ گیا

مگر پھر 25 جولائی سنہ 2000 کو اس جہاز کے کریش ہونے کی خبر اچانک سامنے آئی۔

اس ہونے والے حادثے میں ایک سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ ایئر فرانس کی اس چارٹرڈ پرواز 4590 کی تباہی نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور اب اس کی تحقیقات ہونے لگی تھیں۔

ایئر فرانس کی باضابطہ رپورٹ میں کہا گیا کہ رن وے پر موجود ایک دھاتی ٹکڑے نے ٹائروں اور ایندھن کے ٹینکوں کو نقصان پہنچایا تھا۔ برٹش ایئرویز اور ایئر فرانس دونوں نے ہی اپنے اپنے کونکورڈ گراؤنڈ کر دیے اور نومبر 2001 میں اُنھیں مزید تبدیلیوں کے ساتھ متعارف کروایا۔

مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

اب وہی کونکورڈ جہاز بحرِ اوقیانوس کو تقریباً خالی ہی پار کرتا تھا۔ اس کے علاوہ دیکھ بھال کے اخراجات میں بھی اضافہ ہونے لگا تھا۔ چنانچہ اپریل 2003 میں ایئر فرانس اور برٹش ایئرویز کی جانب سے کونکورڈ کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا۔

آخری پرواز

ایئر فرانس مئی 2003 میں ہی کونکورڈ کو ریٹائر کر چکی تھی اور بالآخر 24 اکتوبر 2003 کو برٹش ایئرویز کی کونکورڈ پرواز 002 آخری مرتبہ نیو یارک سے لندن کے لیے روانہ ہوئی۔

برطانوی فضائی کمپنی نے آخری کمرشل لینڈنگ دیکھنے کے خواہش مندوں کے لیے ہوائی اڈے پر ایک ہزار سیٹوں پر مشتمل سٹینڈ بنایا تھا۔

Share: