دنیا میں جیسے جیسے کووِڈ-19 نامی کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے عام آدمی کے ذہن میں اس بیماری کے بارے میں نت نئے سوالات جنم لے رہے ہیں۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس سے اب تک لاکھوں افراد متاثر ہو چکے ہیں جن میں سے ہزاروں صرف چین میں ہیں۔ اس وائرس سے اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد 50000 سے زائد ہو چکی ہے۔
یہ مرض اب تک پاکستان سمیت دنیا کے 200 ممالک میں پھیل چکا ہے اور اسے عالمی صحت کے حوالے سے ایمرجنسی قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ یہ وائرس کھانسی کے ذریعہ انسان سے انسان میں منتقل ہوتا ہے لہذا یہ ضروری ہے کہ الکوحل سے بنے ہینڈ سینیٹائزر یا گرم پانی اور صابن سے بار بار ہاتھ دھوئیں اور چہرے کو بار بار چھونے سے اجتناب کریں۔
اس کے علاوہ، آپ کو کسی بھی ایسے شخص سے رابطے سے گریز کرنا چاہیے جسے کھانسی، زکام یا بخار کے شکایت ہو۔ جو بھی شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ کورونا وائرس سے متاثر ہے اسے فوراً اپنے معالج سے رابطہ کرنا چاہیے۔
سانس کی بیماری کا شکار کرنے والے کورونا وائرس جیسے وائرس سے دمہ کی علامات بڑھ سکتی ہیں۔
دمہ کی بیماری کے حوالے سے برطانوی ادارے ’ایزتھما یو کے‘ ایسے افراد کو جو اس وائرس سے تشویش میں مبتلا ہیں اپنے دمے کی بیماری پر قابو پانے کے لیے چند ہدایات پر عمل کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ ان ہدایات میں ڈاکٹر کا تجویز کردہ انہیلر کا روزانہ استعمال شامل ہے۔
اس سے کورونا وائرس سمیت کسی بھی سانس کے وائرس سے دمہ کے حملے کے خطرے کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اگر آپ کے دمے کی علامات کسی بھی وقت بگڑ جائیں تو فوراً اپنے معالج سے رابطہ کریں۔
اس ضمن میں متعدد اداروں نے کورونا وائرس کے خلاف احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے عملے کو گھر سے کام کرنے کو کہا ہے۔ یہ فیصلہ ان کمپینوں کے چند ملازمین کی متاثرہ ممالک سے واپسی کے بعد ان میں کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہونے کے بعد کیا گیا ہے۔
لیکن برطانوی ادارے پبلک ہیلتھ انگلینڈ (پی ایچ ای) کا کہنا ہے کہ عملے کو کام سے گھر بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ زیادہ تر مشتبہ کیسز کے نتائج منفی نکلتے ہیں۔ برطانوی ادارہ برائے صحت دفتروں کو بند کرنے کی سفارش نہیں کرتا ہے یہاں تک کہ اگر کورونا وائرس کا کوئی تصدیق شدہ کیس بھی ہو۔
برطانوی حکام صرف ان افراد کو خود ساختہ قرنطینہ کا مشورہ دیتے ہیں:
یہ نیا کورونا وائرس بہت کم تعداد میں افراد کو نمونیا میں مبتلا کر سکتا ہے۔ صرف ان افراد میں اس کا خطرہ موجود ہے جن کے پھیپھڑے پہلے ہی سے کمزور یا خراب ہوں۔ مگر کیونکہ یہ کورونا وائرس کی ایک نئی قسم ہے اور کوئی بھی اس سے محفوظ نہیں ہے اس لیے یہ نیا وائرس کسی بھی طرح کی پھیپھڑوں کی بیماری یا نمونیا کا سبب بن سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف ویکسین دستیاب ہونے میں ابھی 18 ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کہیں آپ کے بچے کو بھی کورونا وائرس تو نہیں؟ جانئیے 6 علامات
سائنسدانوں کے پاس ایسی کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ یہ کہہ سکیں کہ حاملہ خواتین کو اس وائرس سے متاثر ہونے کا زیادہ خطرہ ہے۔ اپنے آپ کو وائرس سے بچانے کے لیے حفظان صحت کے آسان مشوروں پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ان میں اکثر اپنے ہاتھوں کو صابن اور پانی سے اچھی طرح دھونا، اپنے چہرے، آنکھوں یا منہ کو گندے ہاتھوں سے نہ چھونا اور بیمار لوگوں سے دور رہنا شامل ہے۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کورونا وائرس سے متاثر ہو گئے ہیں، یا کسی ایسے شخص کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں جسے اس وائرس نے متاثر کیا یا کسی ایسے متاثرہ ملک کا سفر کیا ہو تو آپ کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ آپ اپنے گھر میں رہیں اور ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔
ابھی ان دونوں بیماری کا براہ راست موازنہ کرنا قبل از وقت ہے لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ دونوں وائرس انتہائی خطرناک ہیں۔
اوسطاً کورونا وائرس سے متاثرہ شخص دو سے تین دیگر افراد کو انفیکشن منتقل کرتے ہیں جبکہ فلو سے متاثرہ افراد اسے قریباً ایک دوسرے شخص تک پہنچاتے ہیں۔ تاہم، فلو سے متاثرہ افراد دوسروں کے لیے زیادہ تیزی سے متعدی ہو جاتے ہیں لہذا دونوں وائرس آسانی سے پھیل سکتے ہیں۔
اس بات کا پتہ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے مہلک کورونا وائرس جانوروں سے انسانوں میں کیسے منتقل ہوا اور یہ تقریباً یقینی ہے کہ چین میں کورونا وائرس کی ابتدائی وباء کسی جانور کے ذریعہ ہی شروع ہوئی تھی۔ اس نئے انفیکشن کے ابتدائی واقعات کا سراغ جنوبی چین کی سی فوڈ ہول سیل مارکیٹ سے ملتا ہے، جہاں زندہ جنگلی جانور بھی فروخت ہوئے جن میں مرغی، چمگادڑ اور سانپ شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کرونا وائرس کی مکمل اپ ڈیٹ اور تمام لائیو اعدادوشمار البتہ کوئی جانور اس وائرس کو انسانی میں منتقل کرنے کا ذریعہ نہیں ہو سکتا ہے۔ چین سے باہر رہنے والے افراد کے لیے کسی جانور سے وائرس سے متاثر ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ ہم اس وقت اس وبا کے مختلف مرحلوں پر ہیں جہاں یہ انسان سے انسان میں پھیل رہا ہے اور یہ ہی اصل خطرہ ہے۔
اگر کوئی متاثرہ شخص کھانسی کرتے ہوئے اپنے ہاتھ منھ پر رکھتا ہے اور پھر کسی چیز کو ہاتھ لگاتا ہے تو وہ سطح پر متاثر ہو جاتی ہے۔ دروازے کے ہینڈل اس کی اچھی مثال ہیں جہاں اس وائرس کے ہونے کا امکان ہو سکتے ہیں۔
تاہم اس بات کا ابھی تک علم نہیں ہے کہ یہ نیا کورونا وائرس اس طرح کی سطحوں پر کتنی دیر تک زندہ رہ سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی عمر دنوں کی بجائے گھنٹوں میں ہے لیکن یہ بہتر ہے کہ آپ باقاعدگی سے ہاتھ دھوئیں تاکہ وائرس سے متاثر ہونے اور پھیلنے کا امکان کم ہو۔
ہمیں ابھی اس وائرس کے متعلق بہت کچھ جاننا باقی ہے۔ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ موسمی یا درجہ حرارت میں تبدیلی اس کے پھیلاؤ پر کوئی اثرات مرتب کریں گے یا نہیں۔
چند دیگر وائرس جیسا کے فلو موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ اپنے اثرات مرتب کرتا ہے جیسا کہ موسم سرما میں یہ بڑھ جاتا ہے۔ مارس اور اس طرح کے دیگر وائرس کے متعلق چند تحقیق یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہ آب و ہوا کے حالات سے متاثر ہوتے ہیں جو گرم مہینوں میں قدرے زیادہ تیزی سے پھیلتے ہیں۔
اگر کوئی کورونا وائرس سے متاثرہ شخص کھانا تیار کردہ ہے اور اس دوران حفظان صحت اور صفائی کا خیال نہیں رکھتا تو ممکنہ طور پر اس سے کوئی اور شخص متاثر ہو سکتا ہے۔ کورونا وائرس کھانسی کے دوران منھ پر ہاتھ رکھنے سے پھیل سکتا ہے اور اگر ایسے میں متاثرہ شخص نے ہاتھ اچھی طرح دھو کر کھانا تیار نہیں کیا تو اس کے امکان بڑھ جاتے ہیں۔ لہذا کھانےکو چھونے اور کھانے سے قبل اچھی طرح ہاتھ دھوئیں تاکہ اس کے جراثیم کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔
جب لوگ کسی انفیکشن یا بیماری سے صحت یاب ہوجاتے ہیں تو ان کے جسم میں اس بیماری سے دوبارہ لڑنے کی کچھ یادداشت رہ جاتی ہے۔ تاہم یہ مدافعاتی عمل ہمیشہ دیرپا یا مکمل طور پر موثر نہیں ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں کمی بھی آسکتی ہے۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ انفیکشن کے بعد یہ مدافعت کب تک چل سکتی ہے۔
کرونا وائرس سائز میں بڑا ہے جس کا ڈائیامیٹر 400-500 مائیکرو ہے اور اس وجہ سے کوئی بھی ماسک اس کو باآسانی روک سکتا ہے۔ ماہرین ہمیشہ ماسک کے استعمال کی تاکید کرنے کے ساتھ ساتھ یس کی جلد تبدیلی کی بھی تلقین کرتے ہیں۔
یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا یہ بھی وائرس منتقلی کا ایک ذریعہ ہے یا نہیں جس کے بارے میں ہمیں فکر مند ہونا چاہئے۔ فی الحال، اس وائرس کے پھیلنے کا سب سے بڑا ذریعہ کھانسی اور چھینکوں کو سمجھا جاتا ہے۔
جی ہاں. بہت سے ایسے افراد جو کوروناوائرس سے متاثر ہوئے اور ان میں بیماری کے معمولی علامات ظاہر ہوئی ان میں سے زیادہ تر افراد کی مکمل صحت یابی کی توقع کی جاتی ہے۔
تاہم، بزرگ افراد جنھیں پہلے سے ذیابیطس، کینسر یا کمزور مدافعتی نظام جیسی بیماریاں لاحق ہیں ان کے لیے یہ ایک خاص خطرہ بن سکتا ہے۔ چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن کے ایک ماہر کا کہنا ہے کورونا وائرس کے معمولی علامات سے ٹھیک ہونے میں ایک ہفتہ لگ سکتا ہے۔
اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اس کا کوئی خطرہ ہے۔ کورونا وائرس سمیت کچھ بیماریاں ان سطحوں سے پھیل سکتی ہیں جہاں ان کے متاثرہ افراد کے کھانسی یا چھینکنے کے بعد چھوا ہو، لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وائرس زیادہ دن زندہ نہیں رہتا ہے۔ کچھ بھی جو بذریعہ ڈاک بھیجا گیا ہے اس کے منزل مقصود تک پہنچنے تک اس سے آلودہ ہونے کا امکان نہیں ہے۔
اس وقت اس وائرس سے بچاؤ کی کوئی ویکسین موجود نہیں ہے جو لوگوں کو اس قسم کے کورونا وائرس سے بچا سکے لیکن محققین اس کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ ایک نئی بیماری ہے جو انسانوں میں پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ جس کا مطلب ہے کہ ڈاکٹروں کے پاس اس کے بارے میں جاننے کے لیے ابھی بھی بہت کچھ ہے۔
اگر آپ پنجاب پاکستان میں رہتے ہیں اور گھر بیٹھے آن لائن ڈرائیونگ لائسنس حاصل…
کم عمری میں سر کے سفید بال اب ایک عام مسئلہ بنتے جا رہے ہیں۔…
Motorola نے اپنا نیا بجٹ اسمارٹ فون Moto G57 Power 5G بھارت میں 24 نومبر…
مائیکروسافٹ نے حال ہی میں Windows 11 کے Copilot+ PCs میں ایک نیا فیچر متعارف…
پاکستان کے ڈیجیٹل اور آئی ٹی کمیونٹی کے لیے خوشخبری ہے! پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ…
تازہ ترین پاکستان اسپیڈ ٹیسٹ کنیکٹیویٹی رپورٹ (پہلی ششماہی 2025) ملک میں موبائل اور فکسڈ…